آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورکی سی سی پی او لاہور، ایس ایس پی ڈسپلن اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورکی سی سی پی او لاہور، ایس ایس پی ڈسپلن اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس
  09مئی پر جناح ہاؤس سمیت دیگر حساس مقامات پر حملے کیلئے اکسانے والے ٹیلی فون کالز ڈیٹا کی تفصیلات میڈیا کے سامنے بیان کیں۔
ڈاکٹریاسمین راشد کی 41، حماد اظہر کی 10، محمود الرشید کی75، اعجاز چودھری کی 50، اسلم اقبال کی 16 اور مراد راس کی 23 کالیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
جناح ہاؤ س سمیت پورے پاکستان میں حساس تنصیبات پر حملے منظم حکمت عملی کے تحت ایک ہی وقت پر کئے گئے۔ آئی جی پنجاب
09مئی کے ٹارگٹس پہلے سے سیٹ تھے اور ان کی منصوبہ بندی کسی سنٹرل پوائنٹ پر کی گئی تھی۔ ڈاکٹر عثمان انور
 پولیس کے پاس تمام کالز سمیت دیگر شواہد موجود ہیں جنہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔آئی جی پنجاب
قومی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز مہم چلائی گئی جسے پنجاب پولیس نے حقائق کے ساتھ ناکا م بنایا۔ڈاکٹر عثمان انور

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ 09مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کی شناخت پریڈ کا عمل جرم کی نوعیت کے حوالے سے جاری ہے اور قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے پنجاب پولیس کوبے جا تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاہم پولیس قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کی گرفتاری، شناخت اور دیگر قانونی کاروائی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لی گئی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی کہ 09مئی کوجناح ہاؤس پر حملے سمیت پورے پاکستان میں حساس تنصیبات پر حملے ایک وقت میں مکمل اور منظم پلاننگ کے تحت پلان کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ 09مئی حملوں کی ترغیب واضح طور پر پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے دی گئی جبکہ سوشل میڈیا پر کارکنوں کو اشتعال دلوایا گیا۔اس حوالے سے ٹارگٹ پہلے سے سیٹ تھے اور ان کی منصوبہ بندی ایک مخصوص سنٹرل پوائنٹ پر کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ پولیس نے ان کے لوگوں کو قتل کیا ہے حالانکہ اسلحہ بھی انہی کے پاس تھا، پولیس اہلکاروں کوتو اسلحہ دیا ہی نہیں گیا تھا۔ انہوں نے پہلے الزام  لگایا کہ پولیس نے 40 بندے مار دیے ہیں پھر دعوی کیا گیا کہ 25بندے مارے ہیں۔ ہم نے کہا کہ الزام لگا رہے ہیں تو لاشیں بھی دکھائیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
ان خیالات کا اظہار آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے سی سی پی لاہور بلال صدیق کمیانہ و دیگر سینئر پولیس افسران کے ہمراہ سنٹرل پولیس آفس میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے ملٹی میڈیا پریزنٹیشن کے ذریعے بتایا کہ 09مئی کو جناح ہاؤس پر حملے کے لیے اکسانے کے لئے مجموعی طور پر215 کالز کی گئیں جس میں یاسمین راشد،اسلم اقبال،مراد راس اور محمود الرشید کی کالز شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق 154 کالیں ایسی ہیں جو 08 اور 09مئی کو کی گئی ہیں جبکہ راولپنڈی جی ایچ کے اطراف میں 88 کالیں اشتعال دلانے کے لئے کی گئیں۔ اسی طرح فیصل آباد میں حساس تنصیبات سے سیاسی قیادت کو 25 کالیں ریکارڈ کی گئی۔ میانوالی بیس پر 50 کالیں ایسی ہیں جوپانچ ٹاپ لیڈرز کے ساتھ انٹرلنکڈہیں۔ یہ کالیں وہاں سے تحریک انصاف کی ٹاپ قیادت میں موجود اہم افراد کو کی گئیں۔ آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایک ایک کال کا ریکارڈ موجود ہے جو دیگرشواہد کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جناح ہاؤس حملہ میں 708 افراد کی شناخت ہوئی اور 125 پکڑے گئے ہیں۔ اسی طرح ان کے اپنے واٹس ایپ گروپوں سے 170 افراد کی شناخت کی جا چکی ہے جو جناح ہاؤس موجود تھے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جناح ہاؤس پر حملہ کے مرکزی کرداروں میں شامل ہیں اور پولیس کے پاس اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ انہی شواہد کی بنیاد پر ڈاکٹریاسمین راشد سے متعلق فیصلے کواعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے جناح ہاؤس پر حملے کے موقع کی ڈاکٹریاسمین راشد کی موجودگی اور اشتعال دلانے کی بیانات پر مبنی ویڈیوز بھی میڈیا کو دکھائیں۔ انہوں نے بتایا کہ جناح ہاؤس پر حملہ کے وقت ڈاکٹریاسمین راشد کی 41، حماد اظہر کی 10، محمود الرشید کی75، اعجاز چودھری کی 50، اسلم اقبال کی 16 اور مراد راس کی 23 کالیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔آئی جی پنجاب نے مزیدکہا کہ زیادتی تویقینا ہوئی ہے تاہم یہ زیادتی پولیس کے ساتھ ہوئی ہے۔ ہمارے ایک ڈی آئی جی کی آنکھ کو نقصان پہنچایا گیا، ہماری لیڈی آفیسرز پرحملے کیے گئے، انہیں زخمی کیا گیا،سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا،پولیس خواتین افسران کی کردار کشی کی گئی، ان کی فیک تصاویراور غیر اخلاقی جعلی ویڈیوز بھی وائرل کی گئیں لیکن ہم اس سب کے باوجودصرف اور صرف قانون کے مطابق اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تمام تھانوں کی حوالات میں کیمرے نصب ہیں جن کاتمام ریکارڈ موجود ہے اسی طرح جیلوں میں بھی کیمروں کی مدد سے گرفتار ملزمان کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے اوراس کا بھی سارا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر کسی ایک خاتون کے ساتھ بھی کسی قسم کی زیادتی ہوئی تو اس کی انکوائری کمیٹی بنے گی جو سخت کاروائی کرے گی۔ اس موقع پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود نے بھی میڈیا کے نمائندوں کو زیر حراست خواتین سے ہونے والی تفتیش بارے آگاہ کیا۔

 

(ہینڈ آؤٹ  نمبر 279 )

سیدمبشر حسین

ڈائریکٹر پبلک ریلیشن

پنجاب پولیس

***************************

 

Press Release Date: 
Sunday, June 4, 2023